ایک اور آواز خاموش ہوئی
مصنف: کاشف نصیر
وقت: پیر، 27 اپریل 2015
آنکھوں میں چمک، چہرے پر امید سے لبریز تازگی، لب پر مسکراہٹ، لہجے میں اپنائیت اور دل پھیک انداز بیان، وہ جب بولتی تو سامع سننا چاہتا، وہ جب سنتی تو مقرر بولنا چاہتا۔ خاموش اور بامہر زبانوں کو جرأت اظہار اور قوت گویائی کی تقسیم گویا اسکی متعہ زندگی تھی اور اسی جرم کی پاداش میں خود اسکی اپنی زبان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا۔
صبین محمود اب اس دنیا میں نہیں ہے لیکن اس نے اپنی مختصر سی زندگی کو بھرپور، متحرک اور بےباک گزارا۔ کنیرڈ کالج لاہور سے گریجویشن کے بعد اس نے اپنے کیرئیر کا آغاز ایک ماہرِ ٹکنالوجی کے طور پر کیا۔ اپنے استاد اور رفیق زہیر قدوأی اور سافٹ ویر صنعت کی جہاں آراء کے ساتھ ملکر پاکستان میں پہلی بار ملٹی میڈیا سی ڈیز متعارف کرائیں جن میں فیض احمد فیض کے کلام پر مبنی سی ڈی آج بھی اپنی مثال آپ ہے۔
اسکے اندر ایک عجیب سی بے چینی تھی جیسے کوئی بپھرا سمندر اسکے وجود سے باہر نکلنے کے لئے بے تاب ہو۔ یہ بے تابی اسے کبھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی تھی۔ 2007 میں جب پاکستان میں سوشل میڈیا نے سر اٹھایا تو جیسے اسکے ہاتھوں میں جنت کی کوئی کنجی لگ گئی ہو۔ بلاگرز اور آن لائن دانشوروں کو متحرک کرنے اور ایک دوسرے سے قریب لانے کے لئے اس نے لاتعداد کانفرنس، سمٹ اور میلے منعقد کروائے۔
وہ ایک سچی اور کھری لبرل دانشور تھی۔ اسکی ترقی پسند سوچ، مطالعہ، قوت برداشت اور رواداری اسے جعلی لبرلز سے نمایاں طور پر جدا کرتی تھیں۔ آپ اس سے ہر بات پر اختلاف کرسکتے تھے لیکن کسی بھی اختلافی نقطے پر اسکے چہرے کا رنگ نہیں بدلتا تھا۔ وہ نظریاتی رواداری کی قائل تھی اور ڈائیلاگ اسکا ہتھیار تھا۔ اگست 2012 میں اس نے ہند و پاک سوشل میڈیا سمٹ کا انعقاد کیا تو میں نے اس تقریب میں امریکی سفارت خانے کے کردار اور ایک مخصوص طبقے کو پاکستان کی واحد آواز کے طور پر پیش کرنے پر شدید تنقید کی۔ یہی تنقید آگے چل کر ہماری دوستی کا سبب بنی۔
اس نے معاشرے میں بلا خوف و خطر گفتگو کی روایت کو زندہ کرنے، تخلیق کاروں کو ذہنی بانجھ پن سے نکالنے، طلبہ و طالبات میں غیر نصابی کتب کا شوق پیدا کرنے اور عام لوگوں کو کھل کر زندگی جینے کا حوصلہ دینے کے لئے ایک گوشہ عافیت “ٹی ٹو ایف” قائم کیا تھا، جہاں گزشتہ آٹھ سالوں سے روزانہ کی بنیاد پر کوئی نہ کوئی تقریب ضرور منعقد ہوتی۔ کبھی شعر و ادب کی محفل برپا ہوتی تو کبھی لکھاری مل بیٹھتے، کبھی ساز اور سر کی لو چھیڑی جاتی تو کبھی مصوری کی نمائش اور مقابلے منعقد ہوتے اور کبھی محفل سماع سجتی۔
میری اس سے متعدد ملاقاتیں ہوئی اور اس نے کم و بیش ہر ملاقات میں اس اندیشے کا اظہار کیا کہ اسے دیکھا جارہا ہے، اسکی حرکات پر نظر رکھی جاتی ہیں اور اسے نشانہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ اسکا ہر دوست اسکے اندیشوں سے باخبر تھا۔
تین سال پہلے اسکی ویلانٹائن ڈے کمپین کے شدید ردعمل سے اور سال پہلے ٹی ٹو ایف پر خطرناک پارسل ارسال کرکے بھی اسے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ میرے نزدیک اسکے قتل کو صرف اور صرف بلوچستان اور ماما قدیر سے متعلق پروگرام کے تناظر میں دیکھنا درست نہیں ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ اسکے گرد خطرات بہت تھے لیکن وہ کبھی خوفزدہ نہیں ہوئی یہاں تک کہ جس خوف کے حسار کو وہ توڑنے نکلی تھی اس میں خود الجھ کر بہادری و جوانمردی کا ایک عنوان بن گئی ہے۔ اسکی موت میں ان لوگوں کے لئے ایک پیغام ہے جو بولنا چاہتے ہیں، لکھنا چاہتے ہیں اور اپنی مرضی سے جینا چاہتے ہیں
No comments:
Post a Comment